EN हिंदी
ہنسی | شیح شیری
hansi

نظم

ہنسی

ذیشان ساحل

;

لڑکے ہنستے ہیں
اور چل پڑتے ہیں

ٹولیوں کی شکل میں
انہیں اپنے گھر کی طرف آتا دیکھ کر

نا بالغ لڑکیاں رونے لگتی ہیں
انہیں روتا دیکھ کر

لڑکوں پر کچھ اثر نہیں ہوتا
وہ ہنستے ہوئے چلتے رہتے ہیں

اپنے ہاتھوں میں
پستولوں کو گھماتے ہوئے

اپنی بندوقوں کی نوکوں سے
دکانوں کے شٹر بجاتے

اپنے اپنے ہتھیار لہراتے
وہ بڑے فخر سے

ہنستے رہتے ہیں
وہ جہاں سے گزرتے ہیں

لوگوں کے چہرے
خوف اور دہشت سے

غیر معمولی حد تک پھیل جاتے ہیں
وہ جہاں ٹھہرتے ہیں

موت ان کے ساتھ
تھوڑی دیر کے لیے وہیں ٹھہر جاتی ہے

موت کو اتنا قریب دیکھ کر بھی
ان کی ہنسی بند نہیں ہوتی

ان کے قدم نہیں لڑکھڑاتے
وہ ہنستے ہی رہتے ہیں

ہر سمت میں بے شمار
گولیاں چلاتے

ہر دیوار ہر دروازے پر
بہت سے سوراخ کرتے

سیاہ سڑک پر انسانی خون سے
سرخ نشان ڈالتے

اپنے پیچھے تر و تازہ پھولوں سے بھری
قبروں کی جنت

اپنے پیچھے
لاتعداد آنسوؤں سے بھرا

شفاف دریا چھوڑتے
ہنستے ہوئے

وہ گزر جاتے ہیں
کبھی ان میں سے ایک آدھ لڑکا

اپنے کسی ساتھی کی غلطی
یا مخالف سمت سے آنے والی گولیوں کی وجہ سے

رکتا ہے
اور ہنستے ہوئے

ایک کار کے پیچھے چھپنے کی کوشش میں
زمین پر گر جاتا ہے

ہمیشہ کے لیے
ہر طرف خاموشی ہو جانے پر

باقی لڑکے
اس کے ٹھنڈے بے جان جسم کے چاروں طرف

جمع ہو جاتے ہیں
وہ دیکھتے ہیں

لڑکے کے چہرے پر
موت کی ہنسی

اب تک موجود ہے