دنیا کس کی انگلیوں پر گردش کر رہی ہے
ہم نہیں جانتے
ہم بس یہ جانتے ہیں
ہمارا وقت تمہاری انگلیوں کی جنبش کا پابند ہے
ہم نے جب گروہ بنائے
سرخ
نیلا
پیلا
سبز
نارنجی
کاسنی
سفید
ہمیں تم نے ان میں سے کسی گروہ میں نہیں رکھا
دراصل تم نے ہمیں جانا ہی نہیں
ہم تمہاری زمین سے باہر تھے
ایک گہری سیاہی میں
اپنی سیاہی میں
ہم اس کوشش میں رہے
کہ تمہاری گھومتی ہوئی زمین کی کشش میں داخل ہو جائیں
جب ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے
تب ہمیں پتہ چلا
کہ یہ سب تمہاری انگلیوں کی جنبش کا کمال ہے
اور آج جب ہم
نہ چاہتے ہوئے بھی
تمہارے سفید مرکز کی سمت بڑھے چلے جا رہے ہیں
تو ہمیں اپنی سیاہی
اور اس میں رہ جانے والے لوگ
بری طرح یاد کیوں آ رہے ہیں!
نظم
ہمیں وہ کیوں یاد آ رہے ہیں
تنویر انجم