گماں کی بے رنگ ساعتوں میں
نواح کرب و بلا سے دربار شام تک ہم
لہو کی اک ایک بوند کا سب خراج دے کر
تمام قرضے چکاتے آئے
شکستہ دہلیز
لہو کی محراب
سناں کا منبر
ہماری عزت بڑھاتے آئے
وہ ہم ہی تھے جو قیام کرتے
رکوع میں جھکتے
زکوٰۃ دے کر
خود اپنے حصے کا طعام دے کر
درود و صلوٰۃ پڑھتے آئے
وہ ہم تھے جو گھروں سے نکلے
تو پھر ابد تک
پلٹ کے گھر کی طرف نہ دیکھا
ستارۂ سحری گواہ ہے
کہ ہم نے انساں کو
چھاؤں دیتے
گھنیرے پیڑوں پہ خون چھڑکا
جھلستے صحرا کو تازگی دی
دہکتی دھرتی کو زندگی دی
مگر وہ تسکیں کا پل کہاں ہے
بھنور بھنور ہے زمانہ سارا
وجود اپنے کدھر گئے ہیں
ہمارے شجرے بکھر گئے ہیں

نظم
ہمارے شجرے بکھر گئے ہیں
فہیم شناس کاظمی