EN हिंदी
ہمارے دن گزر گئے | شیح شیری
hamare din guzar gae

نظم

ہمارے دن گزر گئے

الیاس بابر اعوان

;

گھروں میں کوئی پیڑ ہے نہ موتیے کی بیل ہے
نہ دال کو بگھارتی ہوئی جوان لڑکیاں

کہ سب چلن بدل گیا
فراغتوں کے دن گئے

گئیں وہ کنج وقت کی سفید ریش ساعتیں
شجر کی راہداریاں اجڑ گئیں

گھنی دوپہر میں کھلی کھلی سی دھوپ کا سفر بھی رک گیا
گلی کے سرخ موڑ پر

کنار شام نقرئی لباس میں جمالتی ہوئی شریر اپسرا نہیں رہی
وہ ریش میں گندھے ہوئے

بدن کا خم زمین پر اتارتے ہوئے ضعیف لاٹھیوں پہ ڈولتے
خمیدہ سر نہیں رہے

وہ ٹائروں سے کھیلتا غبار اڑاتا بچپنا
وہ سانولے حجاب میں سفید مسکراہٹیں

حیا کی سبز کترنیں کہ جن پہ سرخ موتیوں کا نیلگوں لحاف تھا
نہ جانے کون سمت ہیں

جلے بجھے سے دیپ ہیں نظر کی رہ گزار میں
ذرا ذرا سی روشنی کہ جس میں خام عجلتیں

بدن کے داغ سینچتیں
جھکے جھکے مزاج پر تنی تنی سی الجھنیں

دلیل سے ورا ہے ساری گفتگو کا سانحہ
ذرا ذرا سی زندگی بڑا بڑا سا خوف ہے

لبوں کے سرخ بام پر ملال رفتگاں نہیں
فراستوں کا قحط ہے

ملامتوں کا عہد ہے
ہمیں فریب زندگی ذرا سا کام کیا پڑا

ہمارے دن گزر گئے