EN हिंदी
ہمہ اوست | شیح شیری
hama-ust

نظم

ہمہ اوست

ن م راشد

;

خیابان سعدی میں
روسی کتابوں کی دکان پر ہم کھڑے تھے

مجھے روس کے چیدہ صنعت گروں کے
نئے کارناموں کی اک عمر سے تشنگی تھی!

مجھے روسیوں کے سیاسی ''ہمہ اوست'' سے کوئی رغبت نہیں ہے
مگر ذرے ذرے میں

انساں کے جوہر کی تابندگی دیکھنے کی تمنا ہمیشہ رہی ہے!
اور اس شام تو مرسدہ کی عروسی تھی

اس شوخ دیوانی لڑکی کی خاطر
مجھے ایک نازک سی سوغات کی جستجو تھی

وہ میرا نیا دوست خالد
ذرا دور تختے کے پیچھے کھڑی

اک تنو مند لیکن فسوں کار
قفقاز کی رہنے والی حسینہ سے شیر و شکر تھا!

یہ بھوکا مسافر
جو دستے کے ساتھ

ایک خیمے میں اک دور افتادہ صحرا میں
مدت سے عزلت گزیں تھا

بڑی التجاؤں سے
اس حور قفقاز سے کہہ رہا تھا:

''نجانے کہاں سے ملا ہے
تمہاری زباں کو یہ شہد

اور لہجے کو مستی!
میں کیسے بتاؤں

میں کس درجہ دل دادہ ہوں روسیوں کا
مجھے اشتراکی تمدن سے کتنی محبت ہے

کیسے بتاؤں!
یہ ممکن ہے تم مجھ کو روسی سکھا دو؟

کہ روسی ادیبوں کی سر چشمہ گاہوں کو میں دیکھنا چاہتا ہوں''
وہ پرودرۂ عشوہ بازی

کنکھیوں سے یوں دیکھتی تھی
کہ جیسے وہ ان سرنگوں آرزوؤں کو پہچانتی ہو

جو کرتی ہیں اکثر یوں ہی روشناسی
کبھی دوستی کی تمنا

کبھی علم کی پیاس بن کر!
وہ کولہے ہلاتی تھی ہنستی تھی

اک سوچی سمجھی حسابی لگاوٹ سے
جیسے وہ ان خفیہ سرچشمہ گاہوں کے ہر راز کو جانتی ہو

وہ تختے کے پیچھے کھڑی قہقہے مارتی لوٹتی تھی
کہا میں نے خالد سے:

بہروپئے!
اس ولایت میں ضرب مثل ہے

''کہ اونٹوں کی سوداگری کی لگن ہو
تو گھر ان کے قابل بناؤ

اور اس شہر میں یوں تو استانیاں ان گنت ہیں
مگر اس کی اجرت بھلا تم کہاں دے سکو گے!''

وہ پھر مضطرب ہو کے بے اختیاری سے ہنسنے لگی تھی!
وہ بولی ''یہ سچ ہے

کہ اجرت تو اک شاہی بھر کم نہ ہوگی
مگر فوجیوں کا بھروسہ ہی کیا ہے

بھلا تم کہاں باز آؤ گے
آخر زباں سیکھنے کے بہانے

خیانت کرو گے''
وہ ہنستی ہوئی

اک نئے مشتری کی طرف ملتفت ہو گئی تھی!
تو خالد نے دیکھا

کہ رومان تو خاک میں مل چکا ہے
اسے کھینچ کر جب میں بازار میں لا رہا تھا

لگاتار کرنے لگا وہ مقولوں میں باتیں
''زباں سیکھنی ہو تو عورت سے سیکھو!

جہاں بھر میں روسی ادب کا نہیں کوئی ثانی
وہ قفقاز کی حور مزدور عورت!

جو دنیا کے مزدور سب ایک ہو جائیں
آغاز ہو اک نیا دورۂ شادمانی

مرے دوستوں میں بہت اشتراکی ہیں
جو ہر محبت میں مایوس ہو کر

یوں ہی اک نئے دورۂ شادمانی کی حسرت میں
کرتے ہیں دل جوئی اک دوسرے کی

اور اب ایسی باتوں پہ میں
زیر لب بھی کبھی مسکراتا نہیں ہوں

اور اس شام جشن عروسی میں
حسن و مے و رقص و نغمہ کے طوفان بہتے رہے تھے

فرنگی شرابیں تو عنقا تھیں
لیکن مے ناب قزوین و خلار شیراز کے دور پیہم سے

رنگیں لباسوں سے
خوشبو کی بے باک لہروں سے

بے ساختہ قہقہوں ہمہموں سے
مزامیر کے زیر و بم سے

وہ ہنگامہ برپا تھا
محسوس ہوتا تھا

تہران کی آخری شب یہی ہے!
اچانک کہا مرسدہ نے:

''تمہارا وہ ساتھی کہاں ہے؟
ابھی ایک صوفے پہ دیکھا تھا میں نے

اسے سر بہ زانو!''
تو ہم کچھ پریشان سے ہو گئے

اور کمرہ بہ کمرہ اسے ڈھونڈنے مل کے نکلے!
لو اک گوشۂ نیم روشن میں

وہ اشتراکی زمیں پر پڑا تھا
اسے ہم بلایا کیے اور جھنجھوڑا کیے

وہ تو ساکت تھا جامد تھا!
روسی ادیبوں کی سر چشمہ گاہوں کی اس کو خبر ہو گئی تھی