سچے خواب اور جھوٹی آنکھیں
اندھے رستوں کی ہم راہی
انجان تحیر کا پانی
اور استفہامی لہجوں کی
دو دھاری تلواریں
تیری قرب سرائے سے
یہ زاد سفر ساتھ لیا ہے
رخصت کے رخساروں پر
آنسو بن کر گرتے
لمحے کے ہاتھوں میں
اپنے ہونے کا آئینہ دے
میں اس کانچ بدن سے
بے نام اندیشوں کا
زنگار کھرچ ڈالوں
اور اجلے پانی میں دیکھ سکوں
ہجر نگر کے تپتے سورج کے نیچے
عمر سفر کا صحرا کتنے کوس پڑا ہے
نظم
ہم ذات سے ہم کلامی اور فراق
سعید احمد