میں آج دفتر میں صبح پہنچا
تو اک نیا زرد زرد چہرہ نظر پڑا
جس کو دیکھتے ہی
معاً مرے دل میں اک دریچہ کھلا
اور اس کے عقب سے
اس زرد شکل کی ہم شبیہ
اک سرخ شکل ابھری
شریر گستاخ بے تکلف
ابھر کے میرے قریب آئی
قریب آ کر
نظر ملا کر
وہ کھلکھلا کر ہنسی
اور اپنے شریر پوروں سے
میرے کالر کی سختیاں پائمال کر دیں
سفید بالوں کے پیچ و خم میں
سیاہیوں کی لکیر کھینچی
نگاہ سے سب خشونتیں
اور جبیں سے سب سلوٹیں مٹا دیں
مجھے دریچے سے لے کے نکلی
طویل راہوں پہ
سبزہ زاروں میں
لہلہاتے حسین کھیتوں میں
چاند تاروں میں پھر رہی تھی
کہ جب اچانک
دریچۂ دل کے بند ہونے سے وقت کے پل صراط کی تیز ڈور ٹوٹی
وہی سفیدی کے پیچ و خم تھے
وہی سفیدی کے پیچ و خم کے تلے جبیں پر شکن
نگہ میں خشونتیں
روبرو وہی زرد زرد چہرہ
جو کانپتی انگلیوں سے فائل کو میز پر رکھ کے ہٹ رہا تھا
نظم
ہم زاد
خورشید رضوی