EN हिंदी
ہم زاد | شیح شیری
ham-zad

نظم

ہم زاد

احمد شمیم

;

برق پا لمحوں کی اک زنجیر میں جکڑا ہوا
وہ شکستہ پا انہی رستوں سے گزرا

اور نادیدہ خداؤں کا ہجوم
خندہ زن آنکھوں سے اس کی نارسائی کا تماشا دیکھ

کر کہتا رہا
تو نے چاہا تھا مگر تیرے مقدر میں نہ تھا

جیسے اس کی بے بسی میں وہ کبھی شامل نہ تھے
وہ کہاں گم ہو گیا

کوئی نقش پا نہیں جس کی زباں
ایک حرف ناشنیدہ ہی کہے

اور میں دن رات کے صحرا میں
اس کو ڈھونڈھ کر پانے کی کوئی آرزو لے چلوں

راستوں پر کوئی نقش پا نہیں
کوئی نشاں باقی نہیں

نقش گر لمحوں کی ہر تحریر
دست بے نشاں کے لمس قاتل کا فسانہ بن گئی

شہر کے لوگوں
تمہارے روزن چاک جگر بھی بند ہیں

تم میں ہر اک نے کسی خشت تمنا
سنگ‌ نفرت سے

یہ چشم روزن دل بند کر کے
آخری امید کا سورج بجھا کر رکھ دیا

اور اب لذات کی دنیا میں گم
سود‌ و سودا کی اسیری پر

رضامند کا طوق بے نشاں پہنے ہوئے
خوش ہو کہ جنت مل گئی

میں اکیلا
تنگ راہوں سنگ دل سڑکوں پہ

اس کو ڈھونڈنے کیسے چلوں
کوئی نقش پا نہیں ملتا مجھے

اور سارا شہر یہ گویا درختوں کا بھرا جنگل
فقط شور عبث کا سلسلہ ہے

کوئی حرف ناشنیدہ سے نہیں واقف یہاں
لحظہ لحظ تیرہ تر ہوتی ہوئی یہ شام بھی

رات کے قلزم میں گر کر بے نشاں ہو جائے گی
اور اک موج فنا اس رات سے تاریک تر

اس بھرے جنگل چمکتے شہر پر چھا جائے گی
ایک میں ہوں راحت خواب شبینہ

میری قسمت میں نہیں
دوپہر کی دھوپ

شب کی تیرگی
میرا مقدر بن گئی

رات کو پھر
سعئ لا حاصل کا زخم لا دوا

ان سیہ رستوں پہ اس کی جستجو کرنے مجھے لے آئے گا
اونگھی سڑکوں پہ اپنی چاپ سن کر

پھر مرے دل کا وہی زخم کہن
صد زبان ہو جائے گا

کون میری داستاں سن لے کہ میں
اس کو پانے کی تمنا کے طفیل

اس بھرے جنگل میں تنہا ہوں
کوئی بھی رازداں میرا نہیں

دوپہر کی دھوپ میں
اس نے کیوں یوں مضمحل نظروں سے دیکھا تھا مجھے

اس کی آنکھوں میں سسکتی روح
کیوں میرے لئے چاک جگر بن کر رہی

کاش یہ چاک جگر چاک گریباں بن سکے
تاکہ میری سعئ لا حاصل کا زخم لا دوا

لذت آوارگی کا طعنۂ قاتل نہ بن جائے کہیں
شہر والے خوش ہیں

چشم روزن دل اب کسی خشت تمنا
تودۂ امید سنگ آرزو سے بند ہے

ایک میں ہوں میرا چاک دل
کسی سوزن سے سلتا ہی نہیں

یہ کسی سنگ تمنا تودۂ امید سے بھرتا نہیں
اور جس کی جستجو میں رات دن

برگ آوارہ بنا پھرتا ہوں میں
اس کا نقش پا کہیں ملتا نہیں

اس کا نقش پا کہیں ملتا نہیں