ہم تو بس پیشی بھگتانے آئے ہیں
ہم نے کیا لینا دینا ہے
رقص صبا سے
تم سے
اس میلے سے
جس میلے میں
دستاویز پر دستخطوں کی پہلی فصل بچھی تھی
اور زمانہ
دو فرسنگ کی نا ہموار مسافت پر حیران کھڑا تھا
ہم نے کیا لینا دینا ہے
چاند سے
چاند کی بڑھیا
اور اس کے چرخے سے
اس آنسو سے
جو ٹپکا تو ہجر ہماری عمروں کے حلقے میں
اول اول نقش ہوا
نہ ہستی پر زینہ زینہ میلی آنکھوں کی سیرابی
نہ دنیا کی بھیڑ میں سانسیں لیتا
وعدہ یاد دلانے آئے ہیں
ہم تو بس پیشی بھگتانے آئے ہیں
نظم
ہم تو بس
فرخ یار