EN हिंदी
ہمسائے کے نام | شیح شیری
ham-sae ke nam

نظم

ہمسائے کے نام

جاوید اختر

;

کچھ تم نے کہا
کچھ میں نے کہا

اور بڑھتے بڑھتے بات بڑھی
دل اوب گیا

دل ڈوب گیا
اور گہری کالی رات بڑھی

تم اپنے گھر
میں اپنے گھر

سارے دروازے بند کئے
بیٹھے ہیں کڑوے گھونٹ پئے

اوڑھے ہیں غصے کی چادر
کچھ تم سوچو

کچھ میں سوچوں
کیوں اونچی ہیں یہ دیواریں

کب تک ہم ان پر سر ماریں
کب تک یہ اندھیرے رہنے ہیں

کینہ کے یہ گھیرے رہنے ہیں
چلو اپنے دروازے کھولیں

اور گھر کے باہر آئیں ہم
دل ٹھہرے جہاں ہیں برسوں سے

وہ اک نکڑ ہے نفرت کا
کب تک اس نکڑ پر ٹھہریں

اب اس کے آگے جائیں ہم
بس تھوڑی دور اک دریا ہے

جہاں ایک اجالا بہتا ہے
واں لہروں لہروں ہیں کرنیں

اور کرنوں کرنوں ہیں لہریں
ان کرنوں میں

ان لہروں میں
ہم دل کو خوب نہانے دیں

سینوں میں جو اک پتھر ہے
اس پتھر کو گھل جانے دیں

دل کے اک کونے میں بھی چھپی
گر تھوڑی سی بھی نفرت ہے

اس نفرت کو دھل جانے دیں
دونوں کی طرف سے جس دن بھی

اظہار ندامت کا ہوگا
تب جشن محبت کا ہوگا