EN हिंदी
ہم نے خواہشوں کے سارے پرندے اڑا دیے ہیں | شیح شیری
humne KHwahishon ke sare parinde uDa diye hain

نظم

ہم نے خواہشوں کے سارے پرندے اڑا دیے ہیں

کشور ناہید

;

شروع شروع میں اچنبھے اچھے لگتے تھے
شوق بھی تھا اور دن بھی بھلے تھے

اچھے لوگوں سے ملنے کا شوق جنون کی حد تک
ہر لمحہ بیتاب لیے پھرتا تھا

جب کوئی اپنا ہیرو
اپنے آدرش کا پیکر سامنے آتا

جی یہ چاہتا
آنکھیں بچھائیں دل میں بٹھائیں

باتیں سنیں اتنی باتیں
سیل زماں سے اونچی باتیں

دل کے گہرے غم کی باتیں
دوری اور نزدیکی

لفظ بہت چھوٹے ہیں
ان لفظوں کو پرکھو تو

انسان اور بھی چھوٹے نکلتے ہیں
پاس بلا کر جسے دیکھو

اس کا چہرہ فق بے رنگ
بھبھوت کی صورت کالا کالا

کیا سورج بہت نیچے آ گیا ہے
کیا ماؤں نے بچے جن کر

دودھ پلانا چھوڑ دیا ہے
گولیاں کھا کے دودھ کے سوتے

خشک کرنے والی ماؤں
پلاسٹک کے بیگز میں رات رات بھر

بچوں کا پیشاب جذب کرنے والی ماؤں
نیند تمہاری بہت میٹھی ہے

ٹھیک ہے تم بھی بے بس ہو
مرد گھروں سے غائب ہوں تو

ماں کی مامتا بلک بلک کر
نیند کی گولی کے آنگن میں سو ہی جایا کرتی ہے

خواب آور گولی
یہ بھی تو آج کی اہم ضرورت ہے

مصنوعی پلکیں آنکھوں سے اتار کے
اصلی چہرہ مت دیکھو

گولیاں کھاؤ سو جاؤ آرام کرو
صبح تمہارے سر کے اوپر سورج کی

اور بھی گرم شعاعیں رقص کریں گی
اچھے لوگ صبح کو کچھ اور شام کو کچھ

اور رات کو ان کے خون کی طغیانی میں
ان کے ہاتھ اور ان کی آنکھیں

بالکل جنگلی چوہے جیسی معلوم ہوں
پہلے پہل یہ اچنبھا تھا

خوف کی تہ میں انجانے کو جاننے کی خواہش
مکڑی کے جالے کی مانند پھیلی

پہلے پہل پستانوں میں درد کی ٹیسیں بہت اٹھیں
پھر یاد نہیں

مصنوعی پلکیں اتنی لمبی ہیں
میں اپنے پیر کے نقش کے آگے دیکھ نہیں سکتی ہوں

کہتے ہیں کہ ہوا چلی ہے
کھیپ نئے لوگوں کی

جن کو اچھا کہنے والے ساتھ ساتھ ہیں
پہنچ گئے ہیں شہر کنارے

سورج اب تو اتنا نیچے آ پہنچا ہے
اس کو اٹھا کے دور کسی کونے میں دفن کرو

رات کی چادر اوڑھنے سے پہچان کا رشتہ
شکر خدایا ٹوٹ تو جاتا ہے

اے رب تو والیٔ کون و مکاں
تو سب کے دلوں کے حال سے واقف ہے

تو ہم کو بتا ہم کیا سوچیں
ہم نے خواہشوں کے سارے پرندے اڑا دئے ہیں