EN हिंदी
ہم لوگ | شیح شیری
hum log

نظم

ہم لوگ

فیض احمد فیض

;

دل کے ایواں میں لیے گل شدہ شمعوں کی قطار
نور خورشید سے سہمے ہوئے اکتائے ہوئے

حسن محبوب کے سیال تصور کی طرح
اپنی تاریکی کو بھینچے ہوئے لپٹائے ہوئے

غایت سود و زیاں صورت آغاز و مآل
وہی بے سود تجسس وہی بے کار سوال

مضمحل ساعت امروز کی بے رنگی سے
یاد ماضی سے غمیں دہشت فردا سے نڈھال

تشنہ افکار جو تسکین نہیں پاتے ہیں
سوختہ اشک جو آنکھوں میں نہیں آتے ہیں

اک کڑا درد کہ جو گیت میں ڈھلتا ہی نہیں
دل کے تاریک شگافوں سے نکلتا ہی نہیں

اور الجھی ہوئی موہوم سی درباں کی تلاش
دشت و زنداں کی ہوس چاک گریباں کی تلاش