EN हिंदी
ہم کہ انسان نہیں آنکھیں ہیں | شیح شیری
hum ki insan nahin aankhen hain

نظم

ہم کہ انسان نہیں آنکھیں ہیں

شہزاد احمد

;

کیا فقط دیکھتے رہنے سے مسائل کی گرہ کھلتی ہے
کیا فقط آنکھ کی پتلی میں ہے محفوظ خدائی ساری

ہم کہ انسان نہیں آنکھیں ہیں
ہم نے آنکھوں کو خدا سمجھا خدائی جانا

آئنہ دیکھا تو ان آنکھوں نے خود کو بھی نہیں پہچانا
دیکھتے دیکھتے پتھرا گئیں دونوں آنکھیں

پھر بھی چہرہ نہ نظر آیا کہیں
پھر بھی دیکھے نہیں دست و بازو

جان کر ہم نے ہر اک چیز سے انکار کیا
ذات سے

ذات کے گرد خدائی کے مناظر سے
مناظر میں چھپی صدیوں کی مظلوم تمناؤں سے

پھوڑ دو دیکھنے والی آنکھیں
ہم تماشائی نہیں کھیل کے کردار بھی ہیں

اپنے کردار کے زنداں میں گرفتار بھی ہیں
ہم سے زندانی ہزاروں لاکھوں

آؤ سب کے لیے دنیا دیکھیں
آؤ اس کوہ کو تسخیر کریں

جس کے پرے
صبح کا رنگ ہے

اور رنگ کی تنویریں ہیں
آؤ تنویروں کو آنکھوں سے نہیں سارے بدن سے دیکھیں