ہم خواب زدہ
پیلے موسم کے انگاروں سے جلے ہوئے
پلکوں میں رنگ برنگے خاکے بھرے ہوئے
سانسوں کو روکے ہوئے
مسلسل خوابیدہ ہیں
دیکھ رہے ہیں خود کو جنگل اور پہاڑوں کے شانوں پر اڑتے ہوئے
آگ اگلتے جھرنوں کی بانہوں میں نغمے گاتے ہوئے
خوش پیکر روپوش پرندوں کے ہمراہ فضا کی وسعت کو لرزیدہ کرتے ہوئے
سیاروں اور کہکشاؤں کی دنیا سے بھی کچھ آگے بڑھتے ہوئے
نیلے ساگر کے گہرے سینے میں پربت کی چوٹی پر مونگے کی گل رنگ چٹانوں پر
لہروں سے لڑتے ہوئے
ہم خواب زدہ پیلے موسم کے انگاروں سے جلے ہوئے
جینے کی خواہش میں ایسے لمحے روز چرا لیتے ہیں
خود سے خود کا کرب اسی تیور سے روز چھپا لیتے ہیں
آنکھیں کیا کھلتی ہیں پاگل بارہ سنگھوں کے حملوں سے
خود کو گھرا ہوا پاتے ہیں
ہم ہمت کے دھنی کھڑے تو ہو جاتے ہیں
لیکن اک عفریت ہمارے پیروں کو یوں کس لیتا ہے
ہم بے حس اور بے دست و پا ہو جاتے ہیں
خوابوں کی وادی میں پہنچ کر
خاک سمندر اور خلا کے
سب رنگوں سے ہاتھ ملا کے ہنس پڑتے ہیں
پلکوں کے صد رنگ طلسموں کی باہوں میں آخر کب تک
ہم سانسو کو بہلائیں گے
لمحوں کے اس جبر مسلسل سے خود کو کب رہا کریں گے
ہم خواب زدہ پیلے موسم کے انگاروں سے جلے ہوئے
نظم
ہم خواب زدہ
عنبر بہرائچی