یہی تھکن کہ جو ان بستیوں پہ چھائی ہے
اتر نہ جائے پرندوں کے شہپروں میں بھی
یہ ٹوٹے پھوٹے مکانات اونگھتے چھپر
چراغ شام کی دھندلی سی روشنی کے امیں
نہ ان کا یار کوئی ہے نہ کوئی نکتہ چیں
نہ جانے کب کوئی دست ستم ادھر آ جائے
اور اس ذرا سی بچی روشنی کو کھا جائے
یہ کھلکھلاتے ہوئے ہنستے مسکراتے لوگ
بسوں میں ریلوں میں منزل کی سمت جاتے لوگ
کوئی دھماکہ انہیں جانے کب اڑا جائے
لہو کے دھبوں پہ افسوس کرتا حاکم شہر
اور اس کے بعد محبت پہ چند تقریریں
جو اہل شہر کی پیشانیوں پہ روشن ہیں
ملال یہ ہے کہ اس کو کوئی نہ دیکھے گا
ہم اہل خوف کے سینوں میں جو دھڑکتا ہے
نظم
ہم اہل خوف
اسعد بدایونی