EN हिंदी
ہیلوسنیشن | شیح شیری
hallucination

نظم

ہیلوسنیشن

عمار اقبال

;

میں اپنے بند کمرے میں پڑا ہوں
اور اک دیوار پر نظریں جمائے

مناظر کے عجوبے دیکھتا ہوں
اسی دیوار میں کوئی خلا ہے

مجھے جو غار جیسا لگ رہا ہے
وہاں مکڑی نے جال بن لیا ہے

اور اب اپنے ہی جال میں پھنسی ہے
وہیں پر ایک مردہ چھپکلی ہے

کئی صدیوں سے جو ساکت پڑی ہے
اب اس پر کائی جمتی جا رہی ہے

اور اس میں ایک جنگل دکھ رہا ہے
درختوں سے پرندے گر رہے ہیں

کلہاڑی شاخ پر لٹکی ہوئی ہے
لکڑہارے پہ گیدڑ ہنس رہے

مسلسل تیز بارش ہو رہی ہے
کسی پتے سے گر کر ایک قطرہ

اچانک ایک سمندر بن گیا ہے
سمندر ناؤ سے لڑنے لگا ہے

مچھیرا مچھلیوں میں گھر گیا ہے
اور اب پتوار سینہ سے لگا کر

وو نیلے آسماں کو دیکھتا ہے
جو یک دم زرد پڑتا جا رہا ہے

وو کیسے ریت بنتا جا رہا ہے
مجھے اب صرف صحرا دکھ رہا ہے

اور اس میں دھوم کی چادر بچھی ہے
مگر وو ایک جگہ سے پھٹ رہی ہے

وہاں پر ایک سایہ ناچتا ہے
جہاں بھی پیر دھرتا ہے وہاں پر

سنہرے پھول کھلتے جا رہے ہے
یے صحرا باغ بنتا جا رہا ہے

اور اس میں تتلیاں دکھتی ہیں
پروں میں جن کے نیلی روشنی ہے

وہ ہر پل تیز ہوتی جا رہی ہے
سو میری آنکھ میں چبھنے لگی ہے

سو میں نے ہاتھ آنکھوں پر رکھے ہیں
اور اب انگلی ہٹا کر دیکھتا ہوں

کہ اپنے بند کمرے میں پڑا ہوں
اور اک دیوار کے آگے کھڑا ہوں