EN हिंदी
ہلچل | شیح شیری
halchal

نظم

ہلچل

نیل احمد

;

مجھے اچھا نہیں لگتا
کھڑا خاموش سا دریا

کوئی ہلچل ہو
طوفاں ہو

کوئی تو بادباں ٹوٹے
کوئی تو ناخدا ایسا ہو جو باد مخالف کو

پلٹ دے زور بازو سے
نا کشتی ڈگمگائے اس کی لہروں کے تلاطم پر

نا کشتی ڈولتی جائے ہوا کے رخ پہ ساحل پر
بہت گرداب بھی ہوں گے

بہت بھونچال آئیں گے
ہو ایسا نا خدا کہ جو بھنور میں ڈوب نہ جائے

خود اپنی ذات کے ایقان پر باہر نکل آئے
یقیں ہو آپ پر تو ساحلوں کو چھوڑ دیتے ہیں

بھروسہ ہو بصیرت پر تو دریا موڑ دیتے ہیں
یوں اپنے آپ میں طوفان کی ہلچل مچا رکھو

کہ طغیانی نہیں آتی تو دریا سوکھ جاتے ہیں