اب کوئی پھول مرے درد کے دریا میں نہیں
اب کوئی زخم مرے ذہن کے صحرا میں نہیں
نہ کسی جنت ارضی کا حوالہ مجھ سے
نہ جہنم کا دہکتا ہوا شعلہ کوئی
میرے احساس کے پردے پہ رواں رہتا ہے
میں کہاں ہوں؟ مجھے معلوم نہیں!!
بولتے لفظ بھی خاموش تمنائی ہیں
جاگتے خواب کی تعبیر یہی ہے شاید
میری تقدیر یہی ہے شاید
میں جسے دیکھنا چاہوں مجھے اندھا کہہ دے!
کون ہوں میں مجھے اے دیدۂ بینا کہہ دے!
زندگی کیوں کسی مفہوم سے عاری ہی رہی
دھوپ میں جسم سلگتے ہی چلے جاتے ہیں
موت کا خوف سمٹتا ہے بکھر جاتا ہے
فاختہ جیسے کسی پیڑ کی شاخوں میں چھپی بیٹھی ہو
سانس سینے میں کسی تیر کی مانند اتر جاتی ہے
منہ چھپائے ہوئے سورج بھی فنا کی تصویر
پیاس بن کر کسی دریا میں اتر جاتا ہے
آس نے یاس کے مہتاب سے خوشبو مانگی
چہرۂ گل پہ کسی قطرۂ شبنم کی دعا اتری ہے
نظم
حیرت خانۂ امروز
احمد ظفر