میرے ہاتھ کھول دیے جائیں
تو میں
اس دنیا کی دیواروں کو
اپنے خوابوں کی لکیروں سے
سیاہ کر دوں
اور قہر کی بارش برساؤں
اور اس دنیا کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر
مسل دوں
میرا دامن خوابوں کے اندھیرے میں
پھیلا ہوا ہے
میرے خواب پھانسی پر چڑھا دیے گئے
میرا بچہ میرے پیٹ سے چھین لیا گیا
میرا گھر قہر خانوں کے اصطبل کے لئے
کھول دیا گیا
مجھے بے زین گھوڑے پر
اندھیرے میدانوں میں اتار دیا گیا ہے
میری زنجیر کا سرا کس کے پاس ہے؟
قیامت کے شور سے پہلے
میں اپنی دھجیوں کو سمیٹ لوں
اپنے بچوں کو آخری بار غذا فراہم کر دوں
اور زہر کا پیالہ پی لوں
میری زنجیر کھول دی جائے
اس کا سرا کس کے ہاتھ میں ہے؟
نظم
ہاتھ کھول دیے جائیں
عذرا عباس