تنہائی کی خاموشی میں
جی بے کار الجھتا ہے
زار و پریشاں رہتا ہوں
لیکن لوگوں کے جمگھٹ میں
اک مہمل سے شور و غل میں
شخصیت سمجھوتے کے تیزاب میں حل ہو جاتی ہے
دل ہوتا ہے اور پشیماں
تنہائی کی خاموشی میں
بھوت شکست و ناکامی کے
اک اک کر کے مجھ سے جب بھی محو تکلم ہوتے ہیں
مجھ کو اپنا اونچا سا قد چھوٹا چھوٹا لگتا ہے
میں اک ذرہ ایک ستارہ بن جاتا ہوں
لیکن میں وہ تارہ کب ہوں
کب ان تاروں میں شامل ہوں
لے کے اجالا جو مانگے کا
اپنی آب بڑھانے کی ناحق سی کوشش کرتے ہیں
تنہائی کی خاموشی!
یہ گھونٹ ہے اک زہر قاتل کا
گھونٹ ہے اک امرت کا بھی یہ
گھونٹ میں دونوں پی لیتا ہوں
رات گئے اجلے بستر پر
سو جاتا ہوں
پہلی کرن کے ساتھ
سنہری پگڈنڈی کا ہو جاتا ہوں
نظم
حاصل کا سفر
راج نرائن راز