EN हिंदी
ہارون کی آواز | شیح شیری
haarun ki aawaz

نظم

ہارون کی آواز

حمایت علی شاعرؔ

;

دیکھو ابھی ہے وادیٔ کنعاں نگاہ میں
تازہ ہر ایک نقش کف پا ہے راہ میں

یعقوب بے بصر سہی یوسف کی چاہ میں
لہرا رہا ہے آج بھی طرہ کلاہ میں

یہ طرہ گر گیا تو الٹ جائے گی زمیں
محور سے اپنے اور بھی ہٹ جائے گی زمیں

تاریخ کے سفر میں غلط بھی قدم اٹھے
گاہے لباس فقر میں اہل حشم اٹھے

گاہے صنم تراش بہ نام حرم اٹھے
پردے نگاہ کے بھی مگر بیش و کم اٹھے

یوں بھی ہوا دہائی اکائی میں ڈھل گئی
خورشید کے الاؤ میں ہر شے پگھل گئی

جب یوں نہ ہو سکا تو یہ تاریخ ہے گواہ
اٹھے عصا بدست غلامان کج کلاہ

زیر زمیں کشادہ ہوئی زندگی کی راہ
اور کچھ نہ کر سکی کسی فرعون کی سپاہ

ہر موج نیل سانپ سی بل کھا کے رہ گئی
اہرام کی نگاہ بھی پتھرا کے رہ گئی

اضداد کی یہ جنگ اصول قدیم ہے
اور اب کہ آدمی کی اکائی دو نیم ہے

افلاک کے تلے سہی مٹی عظیم ہے
ہارون کی زبان بھی لوح کلیم ہے

حد سے گزر نہ جائیں کہیں کمترین لوگ
موسیٰ کے انتظار میں ہیں بے زمین لوگ