تم نے دیکھے ہیں کبھی ہار سنگار
وہ دل آویز سے معصوم سے دو رنگے پھول
رات کو شاخ پہ کھلتے تھے ستاروں کی طرح
وہ بھلا دن کی تمازت کے ستم کیوں سہتے
اس لیے آخر شب اپنے ہی حسن سے بے خود ہو کر
اوس سے بھیگے ہوئے فرش پہ کس پیار سے بچھ جاتے تھے
جیسے کل رات یہاں
زعفراں رنگ کی چادر پہ بکھیرے ہوں کسی نے موتی
اور ہر روز سویرے کوئی بچی آ کر
فرش گل پر بہت آہستہ سے چلتی تھی
خیالوں میں پہنچ جاتی تھی
اس پرستاں میں کہ جس کی پریاں
رات کو فرش پہ یہ پھول بچھا جاتی تھیں
یاد گلیوں سے گزرتی ہوں تو بچپن کے کسی موڑ پہ مل جاتے ہے
وہی معصوم، دل آویز، سبک ہار سنگار
جانتی ہوں میں وہاں
اب مرے صحن کی دیوار کے اس پار نہیں کوئی درخت
اب وہاں ایک عمارت ہے بہت اونچی سی
نظم
ہار سنگار
عذرا نقوی