EN हिंदी
ہائے باپو تری دہائی ہے | شیح شیری
hae bapu teri duhai hai

نظم

ہائے باپو تری دہائی ہے

کنولؔ ڈبائیوی

;

خوئے آزاد جس نے پائی ہے
اس کے قبضے میں کل خدائی ہے

ان سے میں بھی یہ بات کہتا ہوں
جن کی تقدیر میں برائی ہے

اپنے ماضی پہ ڈال لو نظریں
کس قدر کس نے کی بھلائی ہے

بات آئی زباں پہ کہتا ہوں
یہ تو بندوں ہی کی خدائی ہے

روک کر گلا کر رہے ہیں بلیک
قحط کی ہر طرف دہائی ہے

کتنے ٹھیکے میں اب کی بار بچے
کتنی رشوت کی دولت آئی ہے

اپنے اپنوں کو پوچھتا ہے ہر اک
اہل طاقت ہی کی بن آئی ہے

گر منسٹر ہے آپ کا سالا
تو کلکٹر بنا جمائی ہے

ہے جو انجینئر سفارش سے
پھر تو ٹھیکے میں اس کا بھائی ہے

خوف ہے کس کا راج ہے اپنا
اپنا ہی سارا آنہ پائی ہے

روزی اور روزگار ہیں ان کے
ہم غریبوں کا حق گدائی ہے

ان کا ذریعہ ہے یہ کمانے کا
دیکھنے ہی کی پارسائی ہے

کس سے جا کر کنولؔ کرے فریاد
ہائے باپو تری دہائی ہے

آج پھر سے اگست آیا ہے
سب کے گھر میں خوشی ہی چھائی ہے

سال آئندہ کے کمانے کو
تم نے سکیم کیا بنائی ہے