سنہرے خوابوں کی وادی میں مدتوں ہم نے
کئی مکان بسائے کئی مکیں بدلے
تمام عمر رہا انتظار کا عالم
گزرتے لمحوں کا ماتم کیا نڈھال رہے
نہ دوستوں میں کوئی اب نہ دشمنوں میں کوئی
ہمارے ماضی کا ہم سے حساب لے کر جو
ہمارے سود و زیاں کا لگا کے اندازہ
ہمیں بتائے کہ کیا کھویا ہم نے کیا پایا
بس ایک وقت کی ٹھوکر بہ شکل شام و سحر
ہمارے پاؤں میں لگ لگ کے پوچھتی ہے روز
کہاں سے آئے ہو کب تک چلو گے تم یونہی
جواب اس کا بھی ہے اس کے پاس ہی لیکن
سوال کرنے کی عادت سی پڑ گئی ہے اسے
نظم
گزرتے لمحوں کا ماتم
آفتاب شمسی