اک موجود میں
خوف کا
بے حد رات سمندر
چھل چھل چھلکے
ناموجود کی
اک موہوم سی
روشن مچھلی
پھڑکے ابھرے ڈوبے
ایک غصیلے سچ کا
بے رنگ طائر
نامعلوم سے
نامعلوم تلک
اپنے پر پھیلائے
سائیں سائیں
اس پر جھپٹے
ننھی مچھلی
کب تک خود کو بچائے
نظم
غصیلا پرندہ ایک دن اسے کھا جائے گا
انوار فطرت