گنبد نما شفاف شیشہ
محدب
بیچ سے ابھرا ہوا
گنبد نما
شفاف شیشہ
جس میں سے چیزیں
بڑی معلوم ہوتی ہیں
یہ دیکھو
ایک چیونٹی
ہشت پا مکڑے کی صورت
چل رہی ہے
اوس کا قطرہ
مصفا حوض کے مانند
ساکن لگ رہا ہے
ریت کا ذرہ
پہاڑی کی طرح
افلاک کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے
گھنے پانی میں
جرثومے کی جنبش پر
گماں ہوتا ہے
جیسے شیر نے انگڑائی لی ہو!
ہالۂ خورد و کلاں میں
عمر بھر
چھوٹا بڑا کرنے کے چکر میں
بندھی رہتی ہیں نظریں
ایک قبہ دار منظر میں
ازل سے جانتی ہیں
بلبلہ سی
پتلیوں کی سرد محرابیں
جب اس گنبد نما
شفاف شیشے سے گزر کر
ایک مرکز پر
شعاعیں جمع ہوں گی
سامنے جو چیز ہوگی
جل اٹھے گی!!
نظم
گنبد نما شفاف شیشہ
رفیق سندیلوی