لہو نوش لمحوں کے بیدار سائے
اسے گھیر لیں گے سنانیں اٹھائے
تمازت زدہ شب زن باکرہ سی
سمٹ جائے گی اور بھی اپنے تن میں
وہ سورج کا ساتھی اندھیروں کے بن میں
اثاثہ لیے فکر کا اپنے فن میں
شعاعوں کی سولی پہ زندہ ٹنگا ہے
نہ اب شہر میں کوئی اتنا حزیں ہے
غضب ناک تنہائیوں کو یقیں ہے
کہ اس کے مقدر میں وہ خود نہیں ہے
وہ اک انفرادی حقیقت کا حامی
فصیلوں پہ وہم و گماں کی کھڑا ہے
شہر زاد شبنم سے یہ پوچھتا ہے
کہ سورج کے سینے میں کیا کیا چھپا ہے
مگر شام کی سرخ آنکھوں نے اس پر
ہمیشہ سلگتی ہوئی راکھ ڈالی
تہہ آتش سرخ رو وہ سوالی
کہ جس نے ہتھیلی پہ سرسوں جما لی
کسی دیوتا کی نگاہ غضب سے
بنا اجنبی اپنے آباد گھر میں
کبھی اس نگر میں کبھی اس نگر میں
کبھی بس گیا صرف دیوار و در میں
وہ اک شخص تنہا کہ جس کا ابھی تک
سفر ہے مسلسل نہ گھر مستقل ہے
فقط پاس میں اس کے معصوم دل ہے
مگر کس قدر مضطرب مضمحل ہے
جو شہر انا میں کھڑا سوچتا ہے
کہاں رات کاٹے کہاں دن بتائے
ہتھیلی پہ دنیا کا نقشہ بنائے
بھٹکتا ہے وہ آج بھی چوٹ کھائے
ارے گم شدہ آدمی آ کے مل جا
ارے گم شدہ آدمی آ کے مل جا

نظم
گمشدہ آدمی کا انتظار
چندر بھان خیال