یہ نازنیں کہ جسے قاصد بہار کہیں
جواں حسینہ کہ فطرت کا شاہکار کہیں
پیام آمد فصل بہار دیتی ہے
جنوں نصیب دلوں کی دعائیں لیتی ہے
اسے چمن کے ہر اک پھول سے محبت ہے
اسے بہار کی رعنائیوں سے الفت ہے
گلوں میں پھرتی ہے یوں جیسے تیتری کوئی
چمن کی سیر کرے یا حسیں پری کوئی
جو پھول چنتے ہوئے نغمے گنگناتی ہے
یہ شاید اپنی جوانی کے گیت گاتی ہے
شباب نے جو اسے تمکنت سکھا دی ہے
غریب ہی سہی پھولوں کی شاہزادی ہے
جہان والوں کا حسن سلوک دیکھا ہے
اسے زمانے کی بے رحمیوں سے شکوہ ہے
گزر رہے ہیں شب و روز کتنے بھاری سے
شباب کاٹ رہی ہے ہزار خواری سے
خودی کا درس ہے افسانۂ حیات اس کا
جواب پیدا کرے گی نہ کائنات اس کا
اسے زمانے کی نیرنگیوں کا ہوش نہیں
مری نظر میں یہ دیوی ہے گل فروش نہیں
ستم ظریفیٔ فطرت کو آج شرماؤں
جو ہار گوندھے ہیں آج اسی کو پہناؤں
نظم
گل فروش
نذیر مرزا برلاس