EN हिंदी
گل چاندنی | شیح شیری
gul-chandni

نظم

گل چاندنی

زہرا نگاہ

;

کل شام یاد آیا مجھے!
ایسے کہ جیسے خواب تھا

کونے میں آنگن کے مرے
گل چاندنی کا پیڑا تھا

میں ساری ساری دوپہر
سائے میں اس کے کھیلتی

پھولوں کو چھو کر بھاگتی
شاخوں سے مل کر جھولتی

اس کے تنے میں بیسیوں!
لوہے کہ کیلیں تھیں جڑی

کیلوں کو مت چھونا کبھی
تاکید تھی مجھ کو یہی!

یہ راز مجھ پہ فاش تھا
اس پیڑ پر آسیب تھا!

اک مرد کامل نے مگر
ایسا عمل اس پر کیا

باہر وہ آ سکتا نہیں!!
کیلوں میں اس کو جڑ دیا

ہاں کوئی کیلوں کو اگر
کھینچے گا اوپر کی طرف!

آسیب بھی چھٹ جائے گا
پھولوں کو بھی کھا جائے گا

پتوں پہ بھی منڈلائے گا
پھر دیکھتے ہی دیکھتے

یہ گھر کا گھر جل جائے گا
اس صحن جسم و جاں میں بھی

گل چاندنی کا پیڑ ہے!
سب پھول میرے ساتھ ہیں

پتے مرے ہم راز ہیں
اس پیڑ کا سایہ مجھے!

اب بھی بہت محبوب ہے
اس کے تنے میں آج تک

آسیب وہ محصور ہے
یہ سوچتی ہوں آج بھی!

کیلوں کو گر چھیڑا کبھی
آسیب بھی چھٹ جائے گا

پتوں سے کیا لینا اسے
پھولوں سے کیا مطلب اسے

بس گھر مرا جل جائے گا
کیا گھر مرا جل جائے گا؟