اے حضرت متل یہ کرم ہے کہ ستم ہے
کیوں لطف نظر آپ کا نام چیز پہ کم ہے
واللہ کہ ہیں آپ بھی اک زندہ عجائب
صحرا میں اذاں دے کے کہاں ہو گئے غائب
مانا کہ مرے شہر سے دلی ہے بہت دور
جیسے کہ رہ و رسم وفا سے دل مخمور
یہ بات کہے کون
جنگل میں اگر بیل پکا ہے تو چکھے کون
صحرا میں جو گونجی ہے وہ آواز سنے کون
جب تک نہیں پہنچے دل صاحب نظر ان تک
شوریدہ سراں تک
آواز اذاں کیا
گل بانگ فغاں کیا
میں کان میں انگلی دیے بیٹھا تو نہیں ہوں
بہرا تو نہیں ہوں
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
پھر غیب سبب کیوں
اس بندۂ ناچیز پہ تخفیف کرم ہے
یہ بھی نہیں کہتا کہ مجھے مفت ہی بھیجیں
توفیق باندازۂ ہمت کا ہوں قائل
میں آپ کی دیرینہ شرافت کا ہوں قائل
ہر حال میں راضی بہ رضا ہوں
ہدیہ بھی ادا کرنے سے انکار نہیں ہے
آپس میں تکلف کی دیوار نہیں ہے
پھر مجھ پہ تغافل کی نظر کیوں ہے جفا کیوں
یہ حضرت مخمورؔ سعیدی کی ادا ہے
نظم
گوپال متل دہلی کے نام
رضا نقوی واہی