ہوائیں چلتی ہیں تھمتی ہیں بہنے لگتی ہیں
نئے لباس نئے رنگ روپ سج دھج سے
پرانے زخم نئے دن کو یاد کرتے ہیں
وہ دن جو آ کے نقابیں اتار ڈالے گا
نظر کو دل سے ملائے گا دل کو باتوں سے
ہر ایک لفظ میں معنی کی روشنی ہوگی
مگر یہ خواب کی باتیں سراب کی یادیں
ہر ایک بار پشیمان دل گرفتہ ہیں
صبح کے سارے ہی اخبار وحشت افزا ہیں
ہر ایک رہزن و رہبر کی آج بن آئی
کہ اب ہر ایک جیالا ہے سورما سب ہیں
بتاؤں کس سے کہ میں منتظر ہوں جس دن کا
وہ شاید اب نہ کبھی آئے گا زمانے میں
کہاں پہ ہے مرا گوڈو مجھے خبر ہی نہیں
اسے میں ڈھونڈ چکا روم اور لندن میں
نہ ماسکو میں ملا اور نہ چین و پیرس میں
بھلا ملے گا کہاں بمبئی کی گلیوں میں
یہ انتظار مسلسل یہ جاں کنی یہ عذاب
ہر ایک لمحہ جہنم ہر ایک خواب سراب
نظم
گوڈو
باقر مہدی