EN हिंदी
گلاس لینڈسکیپ | شیح شیری
glass landscape

نظم

گلاس لینڈسکیپ

کشور ناہید

;

ابھی سردی پوروں کی پہچان کے موسم میں ہے
اس سے پہلے کہ برف میرے دروازے کے آگے دیوار بن جائے

تم قہوے کی پیالی سے اٹھتی مہکتی بھاپ کی طرح
میری پہچان کر لو

میں ابھی تک سبز ہوں
منہ بند الائچی کی طرح

میں نے آج تمہاری یاد کے کبوتر کو
اپنے ذہن کے کابک سے آزاد کیا

تو مجھے اندر کی پتاور دکھائی دی
چاند پورا ہونے سے پہلے تم نے مجھے چھوا

اور بات پوری ہونے سے پہلے
تم نے بات ختم کر دی

جانکاری کے بھی کتنے دکھ ہوتے ہیں
بن کہے ہی تلخ بات سمجھ میں آ جاتی ہے

اچھی بات کو دہرانے کی سعی
اور بری بات کو بھلانے کی جد و جہد میں

زندگی بیت جاتی ہے
برف کی دیوار میں

اب کے میں بھی چنوا دی جاؤں گی
کہ مجھے آگ سے کھیلتا دیکھ کر

دانش مندوں نے یہی فیصلہ کیا ہے
میں تمہارے پاس لیٹی ہوئی بھی

پھلجڑی کی طرح سلگتی رہتی ہوں
میں تم سے دور ہوں

تب بھی تم میری لپٹوں سے سلگتے اور جھلستے رہتے ہو
سمندر صرف چاند کا کہا مانتا ہے

سر شام جب سورج اور میری آنکھیں سرخ ہوں
تو میں چاند کے بلاوے پہ سمندر کا خروش دیکھنے چلی جاتی ہوں

اور میرے پیروں کے نیچے سے ریت نکل کر
مجھے بے زمین کر دیتی ہے

پیر بے زمین
اور سر بے آسمان

پھانسی پر لٹکے شخص کی طرح ہو کے بھی
یہی سمجھتی ہو

کہ منہ بند الائچی کی طرح ابھی تک سبز ہو