سرمئی ریت کی پگڈنڈی پر
سنگ مرمر کی چٹانوں کا دل آویز شباب
شام کے شعلہ نفس رنگ میں تحلیل ہوا
ہاتھ میں ہاتھ لئے بڑھتے رہے دو سائے
اور خاموش چناروں کی سلگتی آنکھیں
محو دیدار رہیں
دو جواں خواب، کھلے جسم، برہنہ جامے
ایک ہی لے میں دھڑکتے ہوئے دو ہنگامے
جام تھے ہاتھ میں دونوں کے مگر آنکھوں میں
ایک مچلا ہوا ارمان تھا مدہوشی کا
کیا جنوں خیز نظارہ تھا ہم آغوشی کا
لذت وصل سے سرشار تھے دیوانے دو
دفعتاً دور جوں ہی شام ڈھلے دیپ جلے
کوئی بکھری ہوئی زلفوں کو جھٹک کر بولا
مجھ کو ملنا ہے کسی اور سے بھی جانے دو
نظم
گرل فرینڈ
پریم واربرٹنی