EN हिंदी
گرہیں کھلتی نہیں | شیح شیری
girhen khulti nahin

نظم

گرہیں کھلتی نہیں

عارفہ شہزاد

;

کیسی گرہوں میں تار نفس ہے یہ الجھا ہوا
ساری پیشانیوں پر لکیروں کا پھیلا ہوا جال ہے

اس میں جکڑی گئی
مسکراہٹ کہیں

دھجیاں چار اطراف اڑنے لگیں
کس کا ملبوس ہے

ہر نگر ہر گلی
خوف ہی خوف ہے

اگلی باری ہے کس کی
کسی کو پتا تک نہیں

منہ چھپائے ہوئے
طعنے، دشنام سہتے ہیں جو اجنبی

اپنے ہی تو نہیں
چار سو ہے رگیں کاٹتی زمہریری ہوا

سرد مہری کے برفاب موسم میں
ٹھٹھرے ہوئے ہونٹ ہیں

اور زباں کی رگیں بھی تشنج سے کھچنے لگیں
کیسا آسیب وحشت ہے

کیوں سر سے ٹلتا نہیں
آیتیں بھی ہمیں بھول جانے لگیں

جبرئیل امیں
سورۃ الناس اور الفلق پڑھ کے پھونکو

دلوں میں
عقیدوں کی گرہیں پڑی ہیں

یہ ہم سے تو کھلتی نہیں!