زندگی کی لاش
ڈھکنے کے لیے
گیت کے جتنے کفن ہیں
ہیں بہت چھوٹے
رات کی
پرتیما
سودھاکر نے چھوئی
پیر یہ
پھر سے
ستاروں سی ہوئی
آنکھ کا آکاش
ڈھکنے کے لیے
پریت کے جتنے سپن ہیں
ہیں بہت چھوٹے
کھوج میں ہو
جو
لرزتی چھاؤں کی
درد
پگڈنڈی نہیں
اس گاؤں کی
پیر کا اپہاس
ڈھکنے کے لیے
اشرو کے جتنے رتن ہیں
ہیں بہت چھوٹے
نظم
گیت کے جتنے کفن ہیں
کنور بے چین