EN हिंदी
گھروندے | شیح شیری
gharaunde

نظم

گھروندے

اختر پیامی

;

گھنٹیاں گونج اٹھیں گونج اٹھیں
گیس بے کار جلاتے ہو بجھا دو برنر

اپنی چیزوں کو اٹھا کر رکھو
جاؤ گھر جاؤ لگا دو یہ کواڑ

ایک نیلی سی حسیں رنگ کی کاپی لے کر
میں یہاں گھر کو چلا آتا ہوں

ایک سگریٹ کو سلگاتا ہوں
وہ مری آس میں بیٹھی ہوگی

وہ مری راہ بھی تکتی ہوگی
کیوں ابھی تک نہیں آئے آخر

سوچتے سوچتے تھک جائے گی
گھبرائے گی

اور جب دور سے دیکھے گی تو کھل جائے گی
اس کے جذبات چھلک اٹھیں گے

اس کا سینہ بھی دھڑک اٹھے گا
اس کی بانہوں میں نیا خون سمٹ آئے گا

اس کے ماتھے پہ نئی صبح ابھرتی ہوگی
اس کے ہونٹوں پہ نئے گیت لرزتے ہوں گے

اس کی آنکھوں میں نیا حسن نکھر آئے گا
ایک ترغیب نظر آئے گی

اس کے ہونٹوں کے سبھی گیت چرا ہی لوں گا
اوہ کیا سوچ رہا ہوں مجھے کچھ یاد نہیں

میں تصور میں گھروندے تو بنا لیتا ہوں
اپنی تنہائی کو پردوں میں چھپا لیتا ہوں