EN हिंदी
گھر | شیح شیری
ghar

نظم

گھر

محمد علوی

;

اب میں گھر میں پاؤں نہیں رکھوں گا کبھی
گھر کی اک اک چیز سے مجھ کو نفرت ہے

گھر والے سب کے سب میرے دشمن ہیں
جیل سے ملتی جلتی گھر کی صورت ہے

ابا مجھ سے روز یہی فرماتے ہیں
''کب تک میرا خون پسینہ چاٹو گے''

اماں بھی ہر روز شکایت کرتی ہیں
''کیا یہ جوانی پڑے پڑے ہی کاٹو گے''

بھائی کتابوں کو روتا رہتا ہے سدا
بہنیں اپنا جسم چرائے رہتی ہیں

میلے کپڑے تن پہ داغ لگاتے ہیں
بھیگی آنکھیں جانے کیا کیا کہتی ہیں

چولھے کو جی بھر کے آگ نہیں ملتی
کپڑوں کو صندوق ترستے رہتے ہیں

دروازہ کھڑکی منہ کھولے تکتے ہیں
دیواروں پر بھتنے ہنستے رہتے ہیں

اب میں گھر میں پاؤں نہیں رکھوں گا کبھی
روز یہی میں سوچ کے گھر سے جاتا ہوں

سب رستے ہر پھر کے واپس آتے ہیں
روز میں اپنے آپ کو گھر میں پاتا ہوں!