گھر کی بیٹھک میں اک میز پر
اک پرانی گھڑی
صبح سے شام تک
شام سے صبح تک
اور پھر اس طرح
صبح سے شام تک
شام سے صبح تک
وقت کے دائرے میں مسلسل کئی سال سے
کر رہی ہے سفر
منزل انتہا سے بہت دور ہے آج تک وہ مگر
اصل میں اس کی منزل نہیں ہے کوئی
آج میں دیر تک غور سے اس کو تکتا رہا
اور اس میں مجھے عکس انساں دکھائی دیا

نظم
گھڑی میں عکس انساں
انتخاب عالم