EN हिंदी
گواہی دے رہا ہوں میں | شیح شیری
gawahi de raha hun main

نظم

گواہی دے رہا ہوں میں

کمار پاشی

;

گواہی دے رہا ہوں،
اب سے کچھ پہلے جنوبی شہر کے اس پار میں دیکھا گیا تھا

اب جہاں پر خشک پیڑوں کے گھنے جنگل ہیں، سونے تنگ رستے
جھاڑیاں ہیں

اور لمبے زرد، جالی دار پتوں میں ہوائیں سرسراتی ہیں
گواہی دے رہا ہوں، اب سے کچھ پہلے،

جو اپنے ہی لہو میں ڈوبتا دیکھا گیا تھا، وہ کوئی مفرور قیدی تھا
جسے میں جانتا ہوں، اب سے کچھ پہلے، جو میرے ذہن کے تپتے ہوئے

صحرا میں بھاگا پھر رہا تھا
جس کی خواہش تھی:

کہیں ٹھنڈی گھنیری گھاس پر، اپنا لباس خاک و خوں رکھ کر
گل منظر میں کھو جائے

گواہی دے رہا ہوں: اب سے کچھ پہلے،
وہ ننھی، شوخ لڑکی تھی

گلہری سی پھدکتی پھر رہی تھی آم کے سرسبز سایوں میں
اسے معلوم تھا شاید

کہ اس کی چھاتیوں میں میں دھڑکتا ہوں
میں دھڑکن بن گیا تھا

اس کے سینے میں مچلتا تھا
وہ میرا جسم تھی

شاید اسے معلوم تھا:
میں ہر گل منظر میں ہوں اور رات دن اس کا تعاقب کر رہا ہوں

اب سے کچھ پہلے
جنوبی شہر کے اس پار جو دیکھا گیا تھا میں نہیں تھا

کھوج میں میری وہ ننھی شوخ لڑکی تھی
گواہی دے رہا ہوں

اب سے کچھ پہلے