ان کے ذہن
ان کی پرانی لکیروں میں
ڈوب رہے ہیں
وہ اپنی ڈوبتی سانسوں کے
اندھیرے کمروں میں
ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں
ان کی سوچ کا زخمی کوہان
مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے
لرزیدہ ہے
انہیں نئے بتوں سے
نفرت ہے
وہ پرانے بتوں کی پرستش میں
نئے پیدا ہونے والے
بچے کا گلا
گھونٹنا چاہتے ہیں
کہ آزادی کی آواز
اس کے حلق سے نکل کر
ان کے کپڑوں کو
اجلا نہ کر دے
وہ اجلے پن کی پیشانی سے
ڈرتے ہیں
کہ وہ پرانے خداؤں کی
پرستش میں
اپنے آپ کو بھول گئے ہیں
اور آنے والا بچہ
صدیوں پرانے
درخت کی ٹہنی پر بیٹھا
مسکراہٹ کی جھلملاہٹ میں
گرم ہاتھوں کی شاخوں میں
نہا رہا ہے
نظم
گرم ہاتھوں میں شاخ
مخدوم منور