بگولا
خاک زادہ فرش افتادہ
ہوا جاروب کرتی ہے تو اس کا جسم ڈھلتا ہے
سفر کی گردشیں سودائے باطن منتشر سوچیں
ہیولے سا بگولا
بے شباہت قیس زادہ
شہر کی گلیوں میں چکراتا ہے
خود میں چیختا پل میں کئی قرنوں کے بل کھاتا ہے
گرد زرد کا جھولا
بگولا
ہجر زادہ بلکہ ہجرت زاد
صحرا سے ابھی بستی میں آیا تھا
ڈرے سہمے ہوئے لوگوں کی آنکھیں حشر بستہ تھیں
ابھی دو چار گلیاں طے نہ ہو پائیں
خم و پیچ اس کی رہ میں آئے
ذرے کسمسائے
جسم کے اعضا جھڑے
آہستہ آہستہ اڑان اندوہ میں بدلی
اور اب لوگوں کے قدموں میں کوئی واماندہ گرد
بے کنارہ فتادہ ہے
فردا کی دھن میں کوئی ہو بس اک ہیولیٰ ہے
مرے باطن میں جو کچھ پیچ کھاتا ہے
ہیولیٰ یا بگولا ہے
میں پانی اور مٹی سے بہت ڈرتا ہوں
ہجرت سے گزرتا ہوں
ابھرتا ہوں بکھرتا ہوں
نظم
گرد باد
اختر عثمان