برسوں بعد جب اس کو دیکھا پھول سا چہرہ بدل چکا تھا
پیشانی پر فکر کی آیت آنکھیں اب سنجیدہ تھیں
ہونٹ کنول اب بھی ویسے پر شادابی کچھ کم کم تھی
پکے پھلوں کا بوجھ اٹھائے جسم تنا بل کھاتا تھا
رنگیں پیراہن میں اب بھی
خواب کی صورت لگتی تھی
جانے کیسی کیسی حکایت دیکھ اسے یاد آتی تھی
پہلی دفعہ جب ساتھ تھے بیٹھے کلاس کے اندر ہم دونوں
اس کے جسم کے لمس نے مجھ کو
پہلے تو بلایا تھا پھر پکا دوست بنایا تھا
شام تلک میلے میں کیسے پھرتے رہے تھے ادھر ادھر
رات گئے ممی نے اس کو کھوٹی کھری سنائی تھی
ریل کے اندر بیٹھ کے کیسے شرمائے گھبرائے تھے
بغیر ٹکٹ کے پہنچ کے گھر پر کتنی موج منائی تھی
دوپہر کو ڈھابے میں
چائے اور سگریٹ کے ساتھ
تھوڑے سے رومانی ہو کر
کیا کیا باتیں کرتے تھے
گھر کے باہر لان بھی ہوگا گیندا اور گل مہر کے پھول
کھری کھاٹ نہیں رکھیں گے بیڈ بڑے مہنگے ہوں گے
سوٹ مرا ایسا ہوگا تیری ساری ریشم کی
بیٹے کا جو نام رکھیں گے ہندو نہ مسلم ہوگا
بل چکاتے وقت میں اکثر پیسے کم پڑ جاتے تھے
دیکھ کے ددو ہنستا تھا پھر
جانے کیوں خوش ہوتا تھا
کوئی بات نہیں ہے بیٹے
کل جب آؤ دے جانا
جاتے ہوئے جب سیٹھ نے اس کی کمر میں بازو پہنایا
دیکھ کے اس کی آنکھیں مجھ کو چھلک پڑی تھیں چپ کے سے
سوچ رہا تھا پلٹ کے اب وہ
پوچھے گی تم کیسے ہو
یہ ہے آپ کی کافی صاحب اور بھی کچھ چہیے ہوگا
نظم
غیر متوقع ملاقات
ابو بکر عباد