دریا کچھ نہیں
اس کے جل کی مٹھاس کچھ نہیں
اس کی مچھلیاں اور اس کا بپھراؤ کچھ نہیں
میں جب ایک گاتا ہوا پتھر اس میں پھینکتا ہوں
تو دریا ایک گیت بن جاتا ہے
جو اپنے اتار چڑھاؤ اور بپھراؤ میں
زندگی سے کم پر شور نہیں
اور زندگی کا یہی شور دریا ہے
یہی مچھلی یہی مچھیرا
یہی میٹھا جل
اور یہی شاعری ہے
نظم
گاتا ہوا پتھر
سعید الدین