اٹھی چاروں طرف سے جب کہ ظلم و جبر کی آندھی
پیام امن لے کر آ گئے روح زماں گاندھی
بنے ہندوستاں کے واسطے وہ رہبر کامل
توسل سے انہی کے پائی ہم نے اپنی خود منزل
ہوئی روشن اجالے سے دیار ہند کی وادی
جلائی اس طرح کی آپ نے اک شمع آزادی
انہی نے جبر سے انگریز کے ہم کو چھڑایا تھا
صداقت کا شرافت کا ہمیں رستہ بتایا تھا
دکھائی راہ وہ ہم کو جو گوتم نے دکھائی تھی
بتائی بات وہ پھر سے جو عیسیٰ نے بتائی تھی
اخوت کے وہ دریا تھے محبت کے وہ ساحل تھے
اہنسا کے وہ داعی تھے وہ یکجہتی کے قائل تھے
سبق پھر سے پڑھایا تھا جہاں بھر کو بھلائی کا
زمانہ آج بھی مشکور ہے اس حق کے داعی کا
غریبوں کی نحیفوں کی ہمیشہ دستگیری کی
نہ پروا کی مصیبت کی نہ پروا کی اسیری کی
ہمارے دل منور کر دیے نور محبت سے
ہوئے آگاہ اہل دہر رمز آدمیت سے
وطن کے آسماں پر ایک رخشندہ ستارے تھے
ہمیں یہ فخر ہے اہل جہاں گاندھی ہمارے تھے
نظم
گاندھی جینتی پر
کنولؔ ڈبائیوی