گھاس کے سبز میدان تو رہ گئے ہیں فقط خواب میں
میرا بھاری بدن
چاروں پیروں کی تحریک پر اٹھ کے چل تو پڑا ہے
ان آوارہ گلیوں کی انگڑائیوں میں
مگر شہر کی دوڑتی پھرتی سانسوں سے ٹکرا کے
مسمار ہونے لگی ہے مری ہر ادا
اب تو آوارہ گلیوں کی پرچھائیں میں
مکھیاں شوق سے کر رہی ہیں زنا
مری مغموم آنکھ کے افلاک پر
اپنی دم کو ہلا کر کروں کب تلک آنکھ ٹیڑھی اڑانوں کو سیدھی بتا
راستوں پر بھٹکتے ہوئے
روح کی پرورش کے لیے
دو جہانوں کے کاغذ کو منہ میں مسلسل چباتی ہوں میں
ساری امت کی ماں بن کے
اپنے ہی پھیلاؤ میں بیٹھ جاتی ہوں میں
اب کے جب مجھ کو ماں ہی بنایا گیا تو پھر
اس مقدس بدن میں جو گھر کر گئے ہیں
ان اندھے صحیفوں سے نکلے ہوئے دودھ کے چند قطرے پیو
اور اپنے سرابوں کی گہرائیوں میں جیو

نظم
گائے
ریاض لطیف