یہ تجریدی خاکوں کی تصویر گہ ہے
مرا منہ چڑانے کو دیوار و در پر کئی مسخ پیکر ٹنگے ہیں
مجھے گھورتے ہیں ڈراتے ہیں مجھ کو
میں ان سیدھی الٹی لکیروں کے دام ریا میں الجھ گیا ہوں
بالآخر فسون ریا ٹوٹتا ہے
نگہ ایک تصویر کے چوکھٹے پر لگی چٹ پر آ کر رکی ہے
وہاں اس کی قیمت لکھی ہے
جسے دیکھ کر میں پھر اس پیکر مسخ کو دیکھتا ہوں
جہاں اک بھیانک دہن ہے
جو بد رنگ ماتھے پر پھیلا ہوا ہے
صدا آ رہی ہے
یہ بازار ہے مصر کا
اس میں معیار کی کوئی قیمت نہیں ہے
یہاں ایک انٹی پہ یوسف سے پیغامبر بک چکے ہیں
یہاں بلکہ قیمت ہی معیار ٹھہرے
نظم
فسوں ٹوٹتا ہے
افضل پرویز