وہ ایک ننھی سی پیاس جس نے
فرات عصمت کے ساحلوں پر
سراب صحرا کی داستانوں کو اپنے خوں سے رقم کیا تھا
جفا کے تیروں کو خم کیا تھا
وفا کی آنکھوں کو نم کیا تھا
بلند حق کا علم کیا تھا
وہ پیاس کروٹ بدل رہی ہے
اب اپنے پیروں سے چل رہی ہے
وہ پیاس
بچپن میں جس نے ساتوں سمندروں کا سفر کیا تھا
وہ پیاس
جس کی خموشیوں نے صدائے دریا کو سر کیا تھا
وہ پیاس
جس نے ستم گروں کا سکون زیر و زبر کیا تھا
ستم کے ایواں میں آ گئی ہے
وہ پیاس زنداں میں آ گئی ہے
نظم
فرات عصمت کے ساحلوں پر
طارق قمر