EN हिंदी
فٹ پاتھ کے لوگ | شیح شیری
footpath ke log

نظم

فٹ پاتھ کے لوگ

ذیشان ساحل

;

شہر میں کچھ بھی ہو جائے
یہ لوگ کہیں نہیں جاتے

یا شاید ہم
گھروں میں رہنے والوں کو

ایسا ہی لگتا ہے
جب صبح صبح ہمیں کہیں جانا پڑتا ہے

تو انہیں فٹ پاتھ پر
بے خبری کے عالم میں سوتا دیکھ کر

ہم ان کی زندگی کے بارے میں
سوچتے ہیں

مگر واپسی تک بھول جاتے ہیں
ہماری گاڑی کو ٹریفک جام میں

پھنسا دیکھ کر
یہ ہنستے ہیں تو ہمیں

اپنے آپ پر رونا آتا ہے
ہر روز ایک ہی جگہ انہیں دیکھ کے

ہمیں حیرت ہوتی ہے
تیز دھوپ میں انہیں جلتا دیکھ کر

ہمیں افسوس ہوتا ہے
انہیں بارش میں بھیگتا دیکھ کر

ہم خوب ہنستے ہیں
ہر رات جب یہ سوئے ہوئے ہوتے ہیں

اندھیرے فٹ پاتھ پر سے
گزرتے ہوئے

ہم انہیں ٹھوکریں مارتے ہیں
اور کبھی معافی نہیں مانگتے