EN हिंदी
فرقہ پرستی کا چیلنج | شیح شیری
firqa-parasti ka challenge

نظم

فرقہ پرستی کا چیلنج

نذیر بنارسی

;

طاقت ہو کسی میں تو مٹائے مری ہستی
ڈائن ہے مرا نام لقب فرقہ پرستی

میں نے بڑی چالاکی سے اک کام کیا ہے
پہلے ہی محبت کا گلا گھونٹ دیا ہے

میں فتنے اٹھا دیتی ہوں ہر اٹھتے قدم سے
اس دیش کے ٹکڑے بھی ہوئے میرے ہی دم سے

سرمایہ پرستوں نے جنم مجھ کو دیا ہے
مذہب کے تعصب نے مجھے گود لیا ہے

ہے ملک کی تقسیم لڑکپن کی کہانی
اس وقت تو بچپن تھا مرا اب ہے جوانی

گھبراتا ہے شیطاں مری تقریر کے فن سے
میں زہر اگلتی ہوں زباں بن کے دہن سے

درکار ہوا جب بھی مجھے خون زیادہ
میں آ گئی اوڑھے ہوئے مذہب کا لبادہ

میں دیش کی قتالہ ہوں اور سب سے بڑی ہوں
بچوں کی بھی گردن پہ چھری بن کے چلی ہوں

گولی کو سکھا دیتی ہوں چلنے کا قرینہ
میں چھید کے رکھ دیتی ہوں مظلوم کا سینہ

ہر سوکھے ہوئے ہونٹ سے لیتی ہوں تری میں
دم توڑنے والوں کی اڑاتی ہوں ہنسی میں

معصوموں کے ماں باپ کا سر میں نے لیا ہے
بچوں کو یتیمی کا لقب میں نے دیا ہے

ہندو کا لہو ہو کہ مسلماں کا لہو ہو
مطلب ہے لہو سے کسی انساں کا لہو ہو

مل جائے تو میں کس کا لہو پی نہیں سکتی
مجبور ہوں بے خون پیے جی نہیں سکتی

ہر فرقے کے لوگوں کا لہو چاٹ رہی ہوں
فصلوں کی طرح سب کے گلے کاٹ رہی ہوں

جس وقت جہاں چاہوں وہاں آگ لگا دوں
جس بستی کو چاہوں اسے ویرانہ بنا دوں

جس شہر کو پھونکا نہ مکیں تھے نہ مکاں تھا
اٹھتا ہوا کچھ دیر اگر تھا تو دھواں تھا

گلشن مرے ہاتھوں یوں ہی تاراج رہے گا
میں زندہ رہوں گی تو مرا راج رہے گا

طاقت ہو کسی میں تو مٹائے مری ہستی
ڈائن ہے مرا نام لقب فرقہ پرستی