ہر برس ان دنوں میں کہیں بھی رہوں
سلسلے ابر کے
سست رو تیز رو قافلے ابر کے
یوں ہی آتے ہیں قلزم لٹاتے ہوئے
یوں ہی جاتے ہیں یہ ان کا دستور ہے
لیکن اب کے برس
میں اکیلا سر دشت تشنہ کھڑا
ان کو رہ رہ کے آواز دیتا رہا
مجھ کو بھی ساتھ لیتے چلو
قافلہ چھٹ گیا ہے مرا
سلسلے ابر کے
قافلے ابر کے
یوں ہی آتے رہے
یوں ہی جاتے رہے
کب سے آنکھوں کو حسرت ہے برسات کی
نظم
فصل رائیگاں
عزیز قیسی